اس کتاب کی پہلی اشاعت کا مقدمہ لکھتے ہوئے، میں نے چند حقائق کا ذکر اس لیۓ نہیں کیا کہ میں کسی قسم کی بدمزگی یا پیچیدگی پیدا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تاہم قارئین سے، میرا یہ وعدہ تھا کہ ایک روز میں اُنہیں اِن حقائق سے آگاہ ضرور کروں گا۔
اور اگر کسی وجہ سے، یہ کام میں اپنی زندگی میں نہ کرپایا تو میرے انتقال کے بعد یہ راز، راز نہ رہے گا۔ مگر اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔
اس (دوسری) اشاعت میں، اُن حقائق پر سے پردہ اُٹھا کر نہ صرف اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں بلکہ اپنی آئندہ نسل کو بھی یہ بتانا چاہتا ہوں کہ 1947 میں کھڑا کیا گیا “کشمیر کا مسئلہ”آج بھی اُتنا ہی اہم ہے جتنا 1947 میں تھا۔ اور یہ کہ پاکستان کی بقاء کا انحصار مسئلہِ کشمیر کے منصفانہ حل میں مضمر ہے۔
اس اشاعت میں، میں ایک نئے باب ۔ کشمیر بحیثیت ایک مُلک کا اضافہ کررہا ہوں جس میں کشمیر کی آزادی کی سوچ اور لائحہِ عمل موجود ہے۔
یہ فیصلہ اب پاکستان اور کشمیر کی آئندہ نسل نے کرنا ہے! اُنہیں اس مسئلہ کا (1947سے اب تک) دُنیا میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں بشمول مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی کے تناظر میں، از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔
مجھے یقین ہے کہ اگر کشمیر کو ایک آزاد ملک کی حیثیت مل جائے، دُنیا اسے تسلیم کرلے اور اسے اقوامِ متحدہ کی رُکنیت حاصل ہوجائے تو یہ نیا ملک، ایک چھوٹا پاکستان ہی ہوگا۔
کشمیر جنّت نظیر : حماقتیں در حماقتیں
جنت کے نظاروں، وادیوں، دریاؤں، جھیلوں، آبشاروں، چشموں اور دلفریب حُسن کی یہ نگری اپنی مثال آپ ہے۔
یہ بے مثل باغات، شالامار، نشاط و نسیم کی سرزمیں ہے جہاں حیرت زدہ سیاح، یہ سوچنے اور کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں:
فردوس گر بر روۓ زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
کشمیر کے پھل جن میں سیب، آڑو اور خوبانی سرفہرست ہیں، خوش رنگ و خوش ذائقہ ہیں۔ یہاں کے مرد و زن، قدرتی حُسن کا مُرقع ہیں۔ کشمیری پنڈت خواتین بالخصوص نسوانی حُسن کا شاہکار ہیں۔ لوگ ذہین اور محنتی و جفاکش ہیں- شدید سردی اور دُشوار حالات سے نبرد آزمائی کا حوصلہ اور جینے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔
اس کا قدرتی حُسن، پوری وادی کے لیۓ پریشانی اور مشکلات کا سبب بھی رہا ہے کہ بالا دست،ستم ڈھانے سے کب باز آئے ہیں؟ لہذا مقامی آبادی کے لیۓ ہندو، سکھ اور ڈوگرہ سب ایک ہی جیسے تھے۔
برِصغیر ہند و پاک میں، 1947 میں دو آزاد ملک قائم ہوئے تو کشمیر کے لیۓ ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق یا اپنی خود مختاری برقرار رکھنا ضروری تھا۔ تقریباً پانچ سو ریاستوں نے بھارت کے ساتھ اپنا مُستقبل جوڑنے میں تاخیر نہ کی جبکہ کشمیر، جوناگڑھ اور حیدرآباد کو یہ منظور نہ تھا جس کا نتیجہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اختلافات اور جنگ کی شکل میں سامنے آیا۔
(جاری ہے)
سردار محمد ابراہیم خان
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی