مصنف: سردار محمد ابراہیم خان
کشمیر میں جنگِ آزادی کا آغاز، 1947 کے اوائل میں صوبۂِ پونچھ سے ہوا-
اس جنگ کے بارے غیر ملکیوں جن میں جانسن، سٹیفنز اور برڈ وڈ صاحبان شامل ہیں، کے تبصروں سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس کے بارے میں شیخ عبداللّہ نے 21 اکتوبر 1947 کو کیا کہا تھا:
“پونچھ میں گڑبڑ کی وجہ حکومت کی ریاستی پالیسی تھی۔پونچھ کے لوگ مقامی منصب داروں اور کشمیر دربار کی زیادتیوں کی وجہ سے اِن سے نالاں تھے جس کے خلاف ایک عوامی احتجاجی تحریک جنم لے چکی تھی جو فرقہ وارانہ نہ تھی۔
“کشمیر حکومت نے اپنی فوجی دستے وہاں بھیج دیئے جس کی وجہ سے پونچھ میں اضطراب اور افراتفری پھیل گئی۔
“پونچھ کی آبادی کی اکثریت انڈین آرمی کے سابقہ فوجیوں پر مُشتملُ تھی جن کے عزیز و اقارب جہلم اور راولپنڈی میں بھی تھے۔ اس لیۓ وہ اپنے بیوی بچوں کو وہاں چھوڑ کر واپس چلے آۓ۔ واپسی میں کچھ لوگوں نے اُنہیں اپنی حفاظت کے لیۓ ہتھیار وغیرہ بھی فراہم کیۓ۔ اس طرح اُنہوں نے کشمیر کے ریاستی دستوں کو بعض علاقے چھوڑنے پر مجبور کردیا۔”
ایک غیر ملکی تبصرہ نگار، ایان سٹیفنز نے اپنی کتاب پاکستان کے صفحہ۔194 پر کچھ یوں اظہارِ خیال کیا ہے:
“خطرے کے سر پر منڈلانے کی حد تک فیصلہ نہ کرنیوالی ان تین ریاستوں میں سب سے چھوٹی۔ جونا گڑھ، کاٹھیاواڑ کی ساحلی پٹی کے ساتھ، بمبئی اور کراچی کے تقریباً درمیان میں تھی جس کی آبادی کی اکثریت ہندو تھی اور نواب، کسی بھی لحاظ سے ایک متاثر کردینے والا مسلمان نہ تھا۔
“لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تجویز و خواہش کے مطابق نواب کی بہتری اسی میں تھی کہ وہ اپنی ہندو آبادی کی خاطر بھارت کے ساتھ الحاق کرلے۔ جونا گڑھ کو عوامی ردِ عمل کی پرواہ نہ تھی کہ لوگوں کی اکثریت بے خبر تھی۔
“وسط ستمبر میں حالات بگڑے اور کچھ افسوسناک واقعات منظرِ عام پر آۓ تو تقسیم کے چند روز بعد ہی، اُسے پاکستان کے ساتھ الحاق کی بات کرنا پڑی۔
اس سے اتفاق کرنے اور غالباً اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے پیچھے، حکومتِ پاکستان کے کیا عزائم تھے، یہ کسی کو بھی نہیں معلوم؟”
کیمبل جانسن جیسا بے مہر تبصرہ نگار، اسے پاکستانی کابینہ کا ایک ایسا “ٹریپ” پر قرار دیتا ہے جس کا مقصد بھارت کو گزند پہنچانا تھا۔لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی شدید دباؤ کے تحت اور بلا سوچے سمجھے ایک ضربِ کاری لگانے کا یہ اچانک فیصلہ ہوا میں تحلیل ہوکر رہ گیا۔ تاہم قانونی طور پر اس کی تائید کی جاسکتی ہے ( کہ مسٹر جناح قانونی نکات کو بہت اہمیت دیتے تھے) اور جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ والیانِِ ریاست کو الحاق کرنے یا نہ کرنے کی آزادی تھی۔
جونا گڑھ کے بحری محلِ وقوع اور جغرافیائی وجود سے بھی پاکستان کو عملی طور پر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بیوقوف نواب اور اس کا خاندان خسارے میں رہا۔ اور بعد میں اس کے بارہا ذکر اور دُہرانے سے، پاکستان کو کشمیر کے سلسلہ میں کچھ حاصل نہ ہوا۔
یہ ایک ایسا دو دھاری معاملہ تھا جس سےپاکستان اور بھارت کے مابین تلخی و کشیدگی رہی اور بھارت کا پارہ بڑھتا ہی چلا گیا۔
جیسے ہی بھارت کو یہ اندازہ ہوا کہ حکومتِ پاکستان الحاق کے لیۓ سنجیدہ ہوچکی ہے تو اُس نے بھرپور فوجی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، وہاں ایک آزاد جونا گڑھ “عبوری حکومت” کو کام کرنے کی اجازت دے دی جس کے سربراہ مسٹر گاندھی کے دور پار کے ایک عزیز تھے۔
اس کے بعد ریاست میں چند معمولی خلاف ورزیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور 26 اکتوبر کو نواب راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اُس کے پاکستان جانے کے چند روز بعد بھارتی فوجیں، امن و امان کے قیام کے بہانے ریاست میں داخل ہوکر قابض ہوگئیں۔
ہتھیانے کا یہ گُر، بعد میں بھی نہایت کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ 1961 میں گوا، 51-1950 میں کچھ ترمیم کے ساتھ نیپال اور دوبارہ پھر 62-1961 میں نیپال کے خلاف۔(جاری ہے)
عبدالرشید بنگش ۔ لندن
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی