خرطوم(شِنہوا)سوڈان میں سوڈانی فوج اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان جھڑپوں میں 185 افراد ہلاک اور 1 ہزار 800 زخمی ہو چکے ہیں جبکہ لڑائی کے خاتمے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
سوڈان میں اقوام متحدہ کے مخصوص امدادی مشن کے سربراہ وولکر پرتھیس نے سلامتی کونسل کو بند کمرے کے اجلاس میں تنازع کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔
پرتھیس نے اجلاس کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ صورتحال ہے اس لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ توازن کہاں منتقل ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سوڈانی مسلح افواج اور آر ایس ایف کے رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر دشمنی ختم کریں اور بحران کے حل کے لیے بات چیت شروع کریں۔ تاہم سوڈان کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی نے کہا کہ دونوں فریقوں نے بات چیت کے لیے آمادہ ہونے کے کوئی آثار ظاہر نہیں کئے۔
سوڈانی فوج نے پیر کو کہا کہ ان کی آر ایس ایف کے ساتھ فوج کی جنرل کمان اور خرطوم کے مرکز کے ارد گرد محدود جھڑپیں ہوئیں۔
فوج نے ایک بیان میں کہامسلح افواج اپنے تمام ہیڈ کوارٹرز پر مکمل کنٹرول میں ہیں اور جو کچھ دشمن کے جنرل کمانڈ، گیسٹ ہاؤس یا ریپبلکن محل پر قبضے کے بارے میں گردش کر رہا ہے وہ غلط ہے۔
فوج نے مزید کہا کہ سوڈانی فضائیہ نے پیر کو دارالحکومت میں آر ایس ایف کی چوکیوں کو ختم کرنے کے لیے متعدد اہداف پرحملے شروع کیے ۔
آر ایس ایف کے کمانڈر محمد حمدان دگالو نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ سوڈانی آرمی کمانڈر کے جرائم کو روکنے کیلئے مداخلت کرے۔
دگالو نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر کہا کہ عالمی برادری کو اب کارروائی کرنی چاہیے اور سوڈانی جنرل عبدالفتاح البرہان کے جرائم کے خلاف مداخلت کرنی چاہیے جو ایک بنیاد پرست اسلام پسند ہے جو شہریوں پر فضائی بمباری کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوج بے گناہوں کے خلاف وحشیانہ مہم چلا رہی ہے اور ان پر میزائلوں سے بمباری کر رہی ہے۔
انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ ان کی افواج نے سوڈانی فوج کے ساتھ لڑائی شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کسی پر حملہ نہیں کیا۔ ہمارے اقدامات محض محاصرے اور ہماری فورس کے خلاف حملے کا جواب ہیں۔
لڑائی پورے ملک میں بگڑتے ہوئے انسانی بحران کو جنم دے رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر مارٹن گریفتھس نے کہا کہ جھڑپیں لوگوں کوخاص طور پر شہروں میں اپنے خاندانوں کے لیے خوراک، پانی، تعلیم، ایندھن اور دیگر اہم خدمات تک رسائی میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ صحت کی خدمات جو پہلے سے ہی غیر یقینی ہیں ،انہیں مزید تباہی کے دہانے پر دھکیلے جانے کا امکان ہے۔
گریفتھس نے کہا کہ ہسپتالوں ، پانی اور بجلی کے بنیادی ڈھانچے پر حملے کی اطلاعات انتہائی تشویشناک ہیں۔