بیجنگ(شِنہوا)ملک دیوالیہ ہورہے ہیں، مہنگائی بڑھ رہی ہے، لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور ان کے خاندان بھوک سے مر رہے ہیں۔
یہ وہ تاریک تصویر ہے جو مغربی میڈیا دنیا کے غریب ترین ممالک "قرضوں کے جال" میں پھنس رہے کے نام سے کھینچ رہا ہے۔
چین، ایک بار پھر، الزام لگانے کا آسان ہدف بن گیا۔ "چین کے قرضے دنیا کے غریب ترین ممالک کو تباہی کے دہانے پر دھکیل رہے ہیں" کے عنوان سے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی ایک حالیہ رپورٹ میں چین پر نام نہاد "قرضوں کے جال" قائم کرنے کا الزام لگایا اور اسے "دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ معاف نہ کرنے والا سرکاری قرض دہندہ" قرار دیا گیا"۔
لیکن کیا اس الزام کو سچ سمجھ لیا جاتا؟ پاکستان، کینیا، زیمبیا اور سری لنکا سمیت کئی ممالک پر شِنہوا کی جانب سے کی گئی تحقیقات، اے پی کی رپورٹ سے متضاد نقطہ نظر پیش کرتی ہیں، جو ان کے قرضوں کے تعطل پر نئی روشنی ڈالتی ہے۔
سب سے بڑا قرض دہندہ چین نہیں۔ کینیا کے محکمہ خزانے کے مطابق، مارچ 2023 کے آخر تک کینیا کا بیرونی قرضوں کا حجم 36ارب66کروڑڈالر تھا۔ قرض کثیر جہتی قرض دہندگان (46.3 فیصد) اور دو طرفہ ذرائع (24.7 فیصد) پر واجب الادا ہے۔ مارچ 2023 تک، کینیا پر چینی اداروں بشمول چینی بینکوں اور کمپنیوں کا 6ارب31کروڑ ڈالر واجب الادا تھا، لیکن کینیا کے قرضوں کا سب سے بڑا حصہ 17 ارب ڈالر ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) اور ورلڈ بینک کا ہے۔
پاکستان کے اقتصادی امور ڈویژن (ای اے ڈی) کی طرف سے خصوصی طور پر شِنہوا کو دیئے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اپریل 2023 تک، پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 125ارب 70کرور 20لاکھ ڈالر تھا، جب کہ چینی اداروں کا قرضہ 20ارب37کروڑ50لاکھ ڈالر تھا جس میں تقریباً 4 ارب ڈالر محفوظ ذخائر کے طور پر مزید تھے۔ پاکستان میں چینی اداروں کا قرض اس کے کل کا صرف 16.2 فیصد ہے (محفوظ ذخائر کو شامل کیے بغیر)۔
پاکستان میں ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ایکو سولائزیشن ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے سی ای او شکیل احمد رامے نے شِنہوا کو بتایا کہ یہ (اے پی کی کہانی) پہلی کہانی نہیں ۔ یہ چین کو بدنام کرنے کے لیے کہانیوں کے ایک سلسلے کی کڑی ہے۔
دریں اثنا، سری لنکا میں، ملک کے مرکزی بینک اور وزارت خزانہ، اقتصادی استحکام اور قومی پالیسی کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مارچ 2023 تک، سری لنکا کا موجودہ بیرونی سرکاری قرضہ 27ارب60کروڑ ڈالر ہے، جس میں نجی قرض دہندگان کا بڑا حصہ 14ارب 80کروڑڈالر (53.6 فیصد)، کثیر جہتی قرض دہندگان کا 5ارب70کروڑڈالر (20.6 فیصد) جبکہ چینی اداروں کا حصہ 3ارب ڈالر(10.8 فیصد) ہے۔
ورلڈ بینک کے آئی ڈی ایس کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے،اپریل میں جانز ہاپکنز یونیورسٹی کی طرف سے جاری کردہ بریفنگ پیپر بعنوان "انٹیگریٹنگ چائنہ ان ٹو ملٹی لیٹرل ڈیبٹ ریلیف :جی 20 ڈی ایس ایس آئی (ڈیبٹ سروس معطلی کا اقدام) میں پیشرفت اور مسائل، " سے ظاہر ہوا کہ چین (چینی اداروں) کے پاس کینیا کے سرکاری بیرونی قرضہ کا صرف 21 فیصد ہے۔ جس میں نجی قرض دہندگان کے پاس مزید 24 فیصد اور کثیرالجہتی اداروں کے پاس 45 فیصد ہے۔