بیجنگ(شِنہوا) چینی محققین نے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک ماڈل تیار کیا ہے جو تین جہتی نیٹ ورکس پر مشتمل ہے جو کہ درست اور درمیانی مدت کے لئے عالمی موسم کی پیشگوئی کرتا ہے۔ جریدے نیچر میں شائع شدہ ایک حالیہ تحقیقی مضمون کے مطابق موجودہ پیشگوئی کا سب سے درست نظام "عددی موسمی پیشگوئی" (این ڈبلیو پی) طریقہ کار ہے جو کہ کمپیوٹنگ اعتبار سے کافی مہنگا ہے۔ موسم کی یومیہ پیش گوئی، انتہائی آفات کا انتباہ اور موسمیاتی تبدیلی کی پیشگوئیاں ، یہ سب "عددی موسمی پیشگوئی" طریقہ کار سے کی جاتی ہیں جو اعلی صلاحیتوں کے حامل کمپیوٹنگ اور پیچیدہ فزیکل ماڈل پر انحصار کرتی ہے۔ چین کے کلاڈ خدمات مہیا کرنے والے ادارے ہواوے کلاڈ سے وابستہ مصنوعی ذہانت کے چیف سائنسدان اور مضمون کے مصنف تیان چھی نے بتایا کہ روایتی عددی موسمی پیشگوئی طریقہ کار کو عالمی موسم کے اگلے 10 دن کی پیش گوئی کرنے میں 3 ہزار سرورز کے سپرکمپیوٹر کلسٹر پر 4 سے 5 گھنٹے کی گنتی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیشگوئی کی درستگی اب بھی عددی موسمی پیشگوئی کے طریقہ کار کی نسبت نمایاں طور پر کم ہے ۔ ہواوے کلاڈ کی ایک بڑی موسمیاتی ماڈل تحقیق و ترقی ٹیم نے پیچیدہ اور مختلف 3 جہتی موسمیاتی اعداد و شمارپرعمل کرنے میں زمین کے کوآرڈینیٹ نظام پر مشتمل ایک سہ جہتی نیٹ ورک کی تجویز دی ہے۔ تقریبا 40 برس عالمی اعداد وشمارپرتربیت یافتہ، بڑے موسمیاتی ماڈل پھانگو-ویدر نے 2 ماہ میں 10 کروڑ سطح کے پیرامیٹرز حاصل کیے۔ مضمون کے مطابق یہ یورپی سینٹر فار میڈیم رینج ویدر فورکاسٹ کے آپریشنل انٹیگریٹڈ فارکاسٹنگ سسٹم اور عددی موسمی پیشگوئی کی نسبت تمام ٹیسٹ شدہ متغیرات میں بہتر فیصلہ کن پیشگوئی کے نتائج دیتا ہے۔ پھانگو-ویدر کو 24 گھنٹے کی عالمی موسمی پیشگوئی میں صرف 1.4 سیکنڈ لگتے ہیں ، جس میں ممکنہ نمی ، ہوا کی رفتار ، درجہ حرارت اور سمندر کی سطح کا دبا اور دیگر عوامل شامل ہیں۔ اس کی پیشگوئی کی رفتار روایتی عددی طریقوں کی نسبت 10 ہزار گنا تیز ہے۔