جنیوا(شِنہوا) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ بیکٹیریا میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت میں اضافہ جان لیوا بلڈ انفیکشن کا باعث بن رہا ہے۔ گلوبل اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس اینڈ یوز سرویلنس سسٹم (گلاس) رپورٹ نیشنل ٹیسٹنگ کوریج میں اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس (اے ایم آر) کا تناسب ،2017 کے بعد سے اے ایم آر رجحانات اور 27 ممالک میں انسانوں میں اینٹی مائکروبیل سے متعلق ڈیٹا کا تجزیہ پہلی بار فراہم کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق بیکٹیریا میں 50 فیصد سے زیادہ مزاحمت دیکھی گئی ہے، جو اکثر خون میں انفیکشن کا باعث بنتی ہے اس صورتحال میں آخری حربے کے طور پر اینٹی بائیوٹکس کے ساتھ علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ دریں اثنا، عام بیکٹیریل انفیکشن علاج کے خلاف تیزی سے مزاحم ہوتی جا رہی ہے۔
جنسی تعلق سے پھیلنے والی بیماری سوزاک کے 60 فیصد سے زیادہ کیسز نے کھائی جانے والی اینٹی بیکٹیریل دوائی سیپروفلوکسین کے خلاف مزاحمت ظاہر کی ہے۔ڈبلیو ایچ او کی ضروری ادویات کی فہرست (ای ایم ایل) اینٹی بائیوٹکس کو ایکسیس، واچ اور ریزرو کی تین اقسام میں تقسیم کرتی ہے: ایکسیس گروپ میں ادویات ہر وقت عام انفیکشن کی ایک وسیع رینج کے علاج کے طور پر دستیاب ہوتی ہیں۔ واچ گروپ اینٹی بائیوٹکس کی فہرست میں شامل ادویات بہت کم انفیکشنز کے لیے علاج کی پہلی یا دوسری ترجیح کے طور پر تجویز کی جاتی ہیں، جب کہ ریزرو گروپ اینٹی بائیوٹکس کے لیے ہے جنہیں صرف انتہائی سنگین حالات میں آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق ای کولی، سالمونیلا اور سوزاک کی وجہ سے خون کے انفیکشن میں 2017 کے مقابلے میں کم از کم 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تاہم عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ آیا اس کا تعلق کوویڈ-19 کے دوران اسپتالوں میں داخل ہونے اور اینٹی بائیوٹک علاج میں اضافے سے تو نہیں ہے۔